Hot Posts

6/recent/ticker-posts

آپ کے سامنے بھاری دل اور انصاف کے

https://muslimofficials.blogspot.com/muslimofficialsGoogle Maps 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیارے شہریو،

آج، میں آپ کے سامنے ایک اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کھڑا ہوں جو ہمارے ملک کے اراضی اور جائیداد کے قوانین، یا اس کی کمی ہے۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ ہماری آزادی کے بعد کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے کوئی ایسا جامع قانون نہیں بنایا گیا جو زمین کی فروخت اور ملکیت کو مناسب طریقے سے کنٹرول کرے۔ یہ خلا ہمارے قیمتی وسائل کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال اور استحصال کا باعث بنا ہے۔

مناسب قانون سازی کی عدم موجودگی
لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 اور ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ 1882 جیسے متعدد قوانین کی موجودگی کے باوجود، یہ کافی حد تک نافذ نہیں ہیں، اور نہ ہی یہ اتنے جامع ہیں کہ ہمیں درپیش جدید دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے۔ 1908 کا رجسٹریشن ایکٹ بھی موجود ہے، اس کے باوجود رجسٹریشن اور میوٹیشن کے عمل پرانے اور بدعنوانی سے بھرے ہوئے ہیں (PIDE) (NA Gov)

عام شہری کی حالت زار
ہماری زمین پر ایک چھوٹی اشرافیہ کا کنٹرول ہے، محض 192 خاندان، جنہوں نے بے پناہ دولت اور طاقت جمع کی ہے۔ انہوں نے ہماری 800,000 مربع کلومیٹر زمین پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ باقی 22 ملین شہری محروم اور بے آواز ہیں۔ یہ اشرافیہ عیش و عشرت میں رہتے ہیں، ایک سے زیادہ کاروں کے مالک ہیں اور ہزاروں کو ملازمت دیتے ہیں، جب کہ عام آدمی بنیادی ضروریات کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ تفاوت نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ غیر اسلامی ہے کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں عدل و انصاف کو برقرار رکھنے کا درس دیتا ہے۔

آگے کا راستہ
جامع قانون سازی: ہمیں فوری طور پر نئے قوانین کی ضرورت ہے جو شفاف اور قابل نفاذ ہوں۔ ان قوانین کو یقینی بنانا چاہیے کہ زمین کی ملکیت اور لین دین کا ریکارڈ اور درست طریقے سے تصدیق ہو۔ اس میں ہمارے لینڈ ریکارڈ سسٹم کو جدید بنانا شامل ہے تاکہ دھوکہ دہی کو روکا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ تمام لین دین قانونی اور منصفانہ ہوں۔

مساوی تقسیم: زمین کی تقسیم تمام شہریوں میں منصفانہ ہونی چاہیے۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو چند لوگوں کے ہاتھوں میں زمین کے ارتکاز کو روکیں اور ملکیت کے مساوی مواقع کو فروغ دیں۔

احتساب اور شفافیت: زمین کے غیر قانونی لین دین میں ملوث افراد کو جوابدہ بنانے کے لیے سخت اقدامات نافذ کریں۔ اس میں عوام کے لیے قابل رسائی زمینی ریکارڈ کے لیے ایک شفاف ڈیجیٹل رجسٹری قائم کرنا شامل ہے۔

شہریوں کو بااختیار بنانا: شہریوں کو ان کے املاک کے حقوق کے بارے میں تعلیم اور بااختیار بنائیں۔ زمین کے حصول، فروخت اور رجسٹریشن کے عمل کو آسان بنائیں تاکہ ہر پاکستانی بلا ضرورت اپنے حق کا استعمال کر سکے۔

نتیجہ
ہمیں اس استحصالی نظام کے خلاف اٹھنا ہوگا۔ اشرافیہ مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کر سکتی ہے لیکن ان کا یہ عمل اسلامی اصولوں سے خیانت ہے۔ حقیقی اسلام عدل، انصاف اور کمزوروں کے تحفظ کے لیے کھڑا ہے۔ ہمیں ایک ایسا پاکستان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں ہر شہری کو زمین کی ملکیت اور خوشحالی کا حق حاصل ہو۔ آئیے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کریں کہ ہمارے قوانین ہماری اقدار کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ کہ ہماری زمین صرف چند مراعات یافتہ افراد کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے خوشحالی کا ذریعہ ہے۔

اللہ ہمیں حق و انصاف کی راہ پر چلائے۔

شکریہ

یہ تقریر پاکستان کے زمین کی ملکیت اور تقسیم کے نظام میں قانونی اصلاحات کی اہم ضرورت پر توجہ دیتی ہے۔ موجودہ صورتحال، جہاں ایک چھوٹی اشرافیہ زمین کی وسیع مقدار کو کنٹرول کرتی ہے، کو اجاگر کیا جاتا ہے، اور جامع قانون سازی اور منصفانہ تقسیم کے لیے ایکشن کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ نقطہ نظر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام پاکستانی شہری اپنے جائز حصے کا دعویٰ کر سکیں اور اپنی زمین کے فوائد سے لطف اندوز ہو سکیں۔


خواتین و حضرات،

میں آج آپ کے سامنے بھاری دل اور انصاف کے جلتے ہوئے احساس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ 1947 میں پاکستان کا قیام ایک یادگار واقعہ تھا جس کا مقصد اپنے لوگوں کو آزادی، وقار اور خوشحالی لانا تھا۔ یہ سرزمین، جو عوام کے لیے بنائی گئی ہے، بدقسمتی سے اس کے وعدوں کو چند منتخب لوگوں نے ہائی جیک کرتے دیکھا ہے۔ کیا پاکستان 192 افراد یا 192 خاندانوں کے لیے بنایا گیا تھا جنہوں نے لاکھوں لوگوں کو غلام بنا کر ہماری پیاری قوم کے 800,000 مربع کلومیٹر پر قبضہ کر رکھا تھا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا مقابلہ ہمیں غیر متزلزل عزم کے ساتھ کرنا چاہیے۔

ہماری سرزمین کے وسیع رقبے پر قابض یہ خاندان پاکستان کے 220 ملین عوام پر تسلط اور ظلم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ عیش و عشرت میں رہتے ہیں، اپنی بے قابو طاقت کے لوٹ مار میں گھرے ہوئے ہیں، جبکہ عام شہری محنت اور جدوجہد کرتے ہیں۔ ان کے چلے جانے کے بعد بھی، ان کا اثر و رسوخ برقرار رہتا ہے، جو ان کے اختیار کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ان کے الفاظ کی بازگشت اور وسعت ہے، ان کی جبر کی میراث برقرار ہے۔

یہ اشرافیہ اکثر 200 گاڑیوں کے قافلوں میں گھومتے ہوئے، 2,000 نوکروں کو ملازمت دیتے ہوئے، اور ہماری قوم کے اداروں یعنی فوج، پولیس کو اپنی محکومی کے ذاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عام پاکستانی اس ظلم کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جو بھی بولنے کی جرأت کرتا ہے اسے سفاکیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ڈنڈے مار کر خاموش کر دیا جاتا ہے اور ان کے بنیادی حقوق چھین لیے جاتے ہیں۔

یہ ظلم کب تک چلے گا؟ ہم پاکستانی عوام کب تک ایسی ناانصافی برداشت کرتے رہیں گے؟ یہ لوگ ہمارے لیڈر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، دیندار مسلمان ہیں، لیکن ان کے اعمال اسلام کے ان اصولوں سے سختی سے متصادم ہیں، جو عدل، مساوات اور ہمدردی پر زور دیتے ہیں۔

اس سنگین ناانصافی کو دور کرنے کے لیے ہمیں فیصلہ کن اقدام کرنا چاہیے:

زمین کی دوبارہ تقسیم: یہ ضروری ہے کہ ہم زمین کی منصفانہ دوبارہ تقسیم کے لیے پالیسیاں نافذ کریں۔ کسی ایک خاندان یا فرد کو زمین کے وسیع رقبے پر کنٹرول نہیں کرنا چاہیے جب کہ لاکھوں لوگ بے زمین اور غریب ہیں۔

قانونی ڈھانچے کو مضبوط بنانا: ہمیں ایسے مضبوط قانونی ڈھانچے کو قائم کرنا اور ان کو نافذ کرنا چاہیے جو دولت اور طاقت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو روکیں۔ ان قوانین کو یقینی بنانا چاہیے کہ زمین کے تمام لین دین شفاف، منصفانہ اور ریگولیٹڈ ہوں۔

شہری حقوق کی پاسداری: ہر پاکستانی شہری کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔ تقریر، اجتماع اور احتجاج کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔ ناانصافی کے خلاف بولنے پر کسی کو مارا پیٹا یا خاموش نہیں کیا جانا چاہیے۔

ادارہ جاتی اصلاحات: فوج اور پولیس سمیت ہمارے اداروں کو عوام کی خدمت کرنی چاہیے، اشرافیہ کی نہیں۔ ان اداروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے اور تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔

عوامی احتساب: جن لوگوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ قوم کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو انصاف دلانے کے لیے تحقیقات اور ٹرائل ہونا چاہیے۔

ثقافتی اور تعلیمی اصلاحات: ہمیں ایک ایسی ثقافت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو مساوات، انصاف اور جوابدہی کی قدر کرے۔ تعلیم کو شہریوں کو ان کے حقوق اور جمہوری شراکت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے بااختیار بنانا چاہیے۔

ہمیں متحد ہو کر ان تبدیلیوں کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ آئیے پاکستان کی اصل روح کو یاد رکھیں - ایک ایسی قوم جو انصاف، مساوات اور آزادی کے اصولوں پر بنی ہے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ اصول صرف الفاظ نہیں بلکہ ہر شہری کے لیے حقیقت ہیں۔

ہم مل کر جبر کی زنجیریں توڑ سکتے ہیں اور ایک ایسا پاکستان بنا سکتے ہیں جہاں ہر فرد کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے۔ ہم اپنے، اپنے بچوں اور ہماری آزادی کے لیے لڑنے والوں کی یاد کے مرہون منت ہیں۔

شکریہ





 

 ت




 Muslims پاکستان میں زمین کی مساوی تقسیم کے حسابات پاکستان کی کل آبادی تقریباً 22 کروڑ (220 ملین) ہے اور پاکستان کا کل رقبہ تقریباً 8 لاکھ مربع کلومیٹر (800,000 sq km) ہے۔ اس بنیاد پر، ہر شہری کو ملنے والی زمین کے سائز کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ حساب کل رقبہ: 800,000 مربع کلومیٹر کل آبادی: 220,000,000 افراد حساب کا طریقہ ہر فرد کو ملنے والی زمین = کل رقبہ / کل آبادی مربع کلومیٹر کو مربع میٹر میں تبدیل کرنے کے بعد: 1 مربع کلومیٹر = 1,000,000 (10 لاکھ) مربع میٹر تو، 800,000 مربع کلومیٹر = 800,000 * 1,000,000 = 800,000,000,000 مربع میٹر اب، فی فرد زمین کا حساب لگاتے ہیں: 800,000,000,000 مربع میٹر / 220,000,000 افراد = 3,636.36 مربع میٹر فی فرد نتیجہ ہر پاکستانی شہری کو تقریباً 3,636.36 مربع میٹر زمین ملے گی۔ وکالت کے لیے تقریر کی مثال (اضافہ شدہ حساب کے ساتھ) "پاکستان کے معزز شہریوں، آج میں آپ کے سامنے ایک مساوی پاکستان کا وژن لے کر کھڑا ہوں، جہاں ہر شہری کو زمین کا ایک ٹکڑا رکھنے اور گھر بنانے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ بہت طویل عرصے سے، ہماری آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے نے ہماری زمین کے وسیع و عریض حصے پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، جس سے پاکستانیوں کی اکثریت اپنے سروں پر چھت کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ ناانصافی ختم ہونی چاہیے۔ ہم 'دی مساوی زمین کی تقسیم کا قانون' تجویز کرتے ہیں، ایک تبدیلی کا قانون جس کا مقصد زمین کی دوبارہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر پاکستانی شہری کو زمین کا ایک پلاٹ ملے۔ پاکستان کی کل آبادی تقریباً 22 کروڑ ہے اور ہمارا کل رقبہ تقریباً 8 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ اس حساب سے، ہر پاکستانی شہری کو تقریباً 3,636 مربع میٹر زمین ملے گی۔ یہ زمین نہ صرف پناہ فراہم کرے گی بلکہ ہمارے لوگوں کو بااختیار بنائے گی، معاشی تفاوت کو کم کرے گی، اور ہمارے سماجی تانے بانے کو مضبوط کرے گی۔ زمین کی منصفانہ تقسیم سے، ہم تاریخی عدم مساوات کو دور کرتے ہیں اور ایک زیادہ منصفانہ اور خوشحال پاکستان کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ آئیے اس مقصد کی حمایت کے لیے متحد ہوں اور اس وژن کو حقیقت میں بدلنے کے لیے مل کر کام کریں۔ ہم مل کر ایک ایسا مستقبل بنا سکتے ہیں جہاں ہر پاکستانی کو اپنی سرزمین کے مالک ہونے کا وقار اور تحفظ حاصل ہو۔ شکریہ۔"

Post a Comment

0 Comments