نماز کا مکمل اردو ترجمہ اور وضاحت
1. نیت
نماز پڑھنے کی نیت دل میں کریں کہ آپ کس نماز کا فرض ادا کر رہے ہیں، جیسے فرض، سنت، یا نفلی نماز۔
2. تکبیر تحریمہ
اللہ اکبر
(اللہ سب سے بڑا ہے)
3. قیام میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(اللہ کے نام سے شروع، جو نہایت مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے)
الحمد للہ رب العالمین
(تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، جو تمام جہانوں کا رب ہے)
الرحمن الرحیم
(نہایت مہربان، بہت رحم کرنے والا)
مالک یوم الدین
(جزا کے دن کا مالک)
إياك نعبد وإياك نستعين
(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں)
اهدنا الصراط المستقيم
(ہمیں سیدھا راستہ دکھا)
صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين
(ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، نہ ان کا جن پر غضب نازل ہوا اور نہ گمراہوں کا)
4. کسی دوسری سورۃ یا آیات کی تلاوت
نماز میں سورۃ الفاتحہ کے بعد قرآن کی کوئی دوسری چھوٹی سورۃ یا آیات پڑھیں۔
مثلاً سورۃ الإخلاص:
قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ
(کہہ دو وہ اللہ ایک ہے)
وغیرہ۔
5. رکوع
اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جھکیں، کمر کو سیدھا رکھیں اور ہاتھ گھٹنے پر رکھیں۔
تین بار کہیں:
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ
(میرے رب بزرگ ہے)
6. قیام (رکوع سے اٹھنا)
رکوع سے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور کہیں:
سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ
(اللہ وہی سنتا ہے جو اس کی حمد کرتا ہے)
پھر کہیں:
رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ
(ہمارے رب، تمام تعریفیں تیری ہیں)
7. سجدہ
اللہ اکبر کہہ کر زمین پر سجدہ کریں، پیشانی، ناک، دونوں ہاتھ، گھٹنے اور پاؤں زمین پر رکھیں۔
تین بار کہیں:
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى
(میرے رب بلند ہے)
8. جلسہ سجدہ کے درمیان
اللہ اکبر کہہ کر بیٹھ جائیں (جلسہ کریں) اور آرام کریں۔
9. دوسرا سجدہ
پھر دوبارہ اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کریں اور تین بار
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى کہیں۔
10. اٹھنا
اللہ اکبر کہہ کر اٹھیں، اور اگلی رکعت کے لیے کھڑے ہو جائیں۔
11. تشہد (آخری رکعت میں)
نماز کے آخری رکعت کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں:
اَلتَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَىٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
ترجمہ:
تمام سلامتی اللہ کے لیے ہے، تمام نمازیں اور نیکیاں اللہ کے لیے ہیں، سلامتی ہو تجھ پر اے نبی، اور اللہ کی رحمت اور برکتیں،
سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر،
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
12. دُرود شریف پڑھنا
اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرٰهِيمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرٰهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
(اے اللہ! محمد ﷺ اور ان کے اہل بیت پر رحمت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور ان کے اہل بیت پر رحمت نازل فرمائی، تو بے شک قابل تعریف، باعظمت ہے)
13. دعا
آپ اپنی مرضی کی کوئی دعا بھی پڑھ سکتے ہیں، مثلاً:
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
(اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا)
14. سلام پھیرنا (نماز کا اختتام)
دائیں طرف منہ کر کے کہیں:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته
(اللہ کا سلامتی، رحمت اور برکتیں آپ پر ہوں)
پھر بائیں طرف منہ کر کے بھی یہی کہیں:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته
۔ اسلام اور دیگر مذاہب اور فلسفے بھی اس بات پر زور دیتے
ہیں کہ انسانوں کے درمیان نفرت، دشمنی، اور اختلافات شیطان، خود غرضی، حسد، اور جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے:
شیطان نے انسانوں کے دلوں میں نفرت، تکبر، اور فساد ڈالنے کی کوشش کی تاکہ وہ آپس میں لڑیں اور خدا کی عبادت چھوڑ دیں۔ جیسے قرآن میں بھی آیا ہے:
"اور جاہلوں کے ساتھ مت لڑو، بلکہ ان سے اس طرح کہ وہ عقل و دانش پر آئیں۔"
(سورۃ الفرقان، 25:63)
اور حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ شیطان انسانوں کو ایک دوسرے سے دشمن بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔
نفرت کیوں پیدا ہوتی ہے؟
-
تعصب (Prejudice)
-
خود پسندی اور غرور
-
خوف اور عدم سمجھ بوجھ
-
وسائل کی کمی اور مقابلہ
-
غلط فہمیاں اور مواصلاتی کمی
حل کیا ہے؟
-
محبت اور اخوت کا جذبہ پیدا کرنا
-
ایک دوسرے کو سمجھنا اور عزت دینا
-
معافی اور تحمل کا رویہ اپنانا
-
علم و حکمت کی روشنی میں آگے بڑھنا
-
اتحاد اور بھائی چارے کی تعلیمات کو فروغ دینا
عنوان: غلط فہمیاں اور مواصلاتی کمی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
معزز اساتذہ اور میرے پیارے دوستوں!
آج میں ایک ایسے مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے، اور وہ ہے غلط فہمیاں اور مواصلاتی کمی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اور گفتگو اور بات چیت کے ذریعے ہی ہم ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ لیکن جب بات چیت میں کمی ہو جائے یا ہم ایک دوسرے کی بات کو صحیح طریقے سے نہ سمجھیں، تو غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ غلط فہمیاں اکثر نفرت، دشمنی اور اختلافات کی بنیاد بنتی ہیں۔
یہ مسئلہ کسی خاص طبقے، جنس یا گروہ تک محدود نہیں ہے۔ امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت، عالم ہو یا عام آدمی، سب میں کبھی نہ کبھی یہ غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ ہر شخص کی سوچ، تجربات اور نظریات مختلف ہوتے ہیں۔
لہٰذا ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سنیں، سمجھیں اور برداشت کریں۔ ہمیں چاہیے کہ تعصب، غرور اور خود پسندی کو چھوڑ کر محبت اور احترام کا جذبہ اپنائیں۔
قرآن مجید اور ہماری دینی تعلیمات بھی ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے لیے نرم دل، مہربان اور سمجھدار بنیں تاکہ ہمارے دلوں میں محبت اور بھائی چارہ قائم ہو۔
آخر میں میں یہی کہنا چاہوں گا کہ اگر ہم سب مل کر اپنے دلوں سے غلط فہمیاں اور مواصلاتی کمی کو ختم کریں گے تو ہمارا معاشرہ خوشحال، پرامن اور متحد ہو جائے گا۔
شکریہ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انسان کی اپنی ذمہ داری — نفرت اور اختلافات کا حل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
محترم اساتذہ اور میرے عزیز دوستوں!
آج میں آپ سے ایک بہت اہم اور فکر انگیز موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں، اور وہ ہے انسان کی اپنی ذمہ داری نفرت، دشمنی اور اختلافات میں۔
ہم اکثر سنتے ہیں کہ نفرت اور فساد شیطان یا دیگر عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی جزوی طور پر درست ہے، مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم خود اپنی سوچ، رویے اور عمل کے ذمہ دار ہیں۔
ہر انسان کے دل میں اچھائی اور برائی دونوں صفات موجود ہوتی ہیں، اور وہ خود فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا راستہ اختیار کرے گا۔ نفرت اور دشمنی پیدا کرنا، دوسروں کو نقصان پہنچانا، دوسروں کی عزت پامال کرنا یہ سب ہماری اپنی عقل اور انتخاب کا نتیجہ ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پرامن، خوشحال اور متحد ہو، تو سب سے پہلے ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے اندر محبت، برداشت، اور رواداری کے جذبات کو پروان چڑھانا ہوگا۔
اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے، اور ہمیں اپنی غلطیوں کو سمجھ کر ان میں سدھار لانا چاہیے۔ دوسروں کو الزام دینے سے بہتر ہے کہ ہم خود اپنی ذمہ داری قبول کریں اور مثبت تبدیلی لائیں۔
یہی سوچ ہمیں ایک بہتر انسان اور ایک مضبوط معاشرہ بنا سکتی ہے، جہاں ہر فرد ایک دوسرے کے جذبات اور حقوق کا احترام کرے گا۔
آئیں، ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم نفرت اور دشمنی کو دلوں سے نکال کر محبت، بھائی چارہ اور امن کو جگہ دیں گے۔ کیونکہ تبدیلی کا آغاز خود سے ہوتا ہے۔
شکریہ!
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اتحاد اور بھائی چارے کی تعلیمات کو فروغ دینا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
معزز اساتذہ، دوستوں، اور حاضرین!
آج میں آپ کے سامنے ایک بہت اہم موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں، اور وہ ہے اتحاد اور بھائی چارے کی تعلیمات کو فروغ دینا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ انسانیت کا اصل سرمایہ محبت، اتحاد، اور بھائی چارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہمیں یہی سبق دیا ہے کہ ہم سب ایک خاندان کی مانند ہیں، ہم سب ایک ہی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ہمارے دلوں میں نفرت، بغض اور تعصب کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔
اتحاد وہ طاقت ہے جو ہمیں مشکلات میں ایک دوسرے کا سہارا بناتی ہے، یہ وہ روشنی ہے جو اندھیروں کو ختم کر دیتی ہے، اور یہ وہ پل ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے۔ بھائی چارہ ہی وہ زرخیز زمین ہے جس پر ہم امن، ترقی اور خوشحالی کے پھول اُگا سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے آج دنیا میں، اور خاص طور پر ہمارے معاشرے میں، بہت سی غلط فہمیاں، تعصبات، اور نفرتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ سب ہمارے دلوں میں شیطان کی چالوں اور اپنی خود غرضیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم ان سب کو ختم کرنے کے لیے اپنی طاقت کو یکجا کریں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اور آپس میں نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کا معاون بنو، اور گناہ اور دشمنی میں ایک دوسرے کا معاون نہ بنو۔"
(سورۃ المائدہ، آیت ۲)
ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کی خامیوں کو نظر انداز کرکے ان کی خوبیوں کو دیکھیں، اور ہر انسان کی عزت کریں، چاہے وہ ہمارے نظریات یا رنگ و نسل سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔
آئیں ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم نفرت کو محبت میں بدلیں گے، اختلافات کو برداشت میں بدلیں گے، اور دشمنیوں کو دوستی میں تبدیل کریں گے۔ کیونکہ یہی بھائی چارہ ہمیں ایک مضبوط اور کامیاب معاشرہ بنانے کی بنیاد ہے۔
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر ہم سب مل کر محبت، اتحاد، اور بھائی چارے کو اپنائیں گے تو کوئی بھی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔
شکریہ!
0 Comments